حوزہ نیوز ایجنسیl
ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
ماہ رمضان المبارک کے دسویں دن کی دعا
أَللّهُمَّ اجْعَلْنى فيهِ مِنَ الْمُتَوَكِّلينَ عَلَيْكَ وَاجْعَلْنى فيهِ مِنَ الْفـآئِزينَ لَدَيْـكَ وَاجْعَلْنى فيهِ مِنَ الْمُقَرَّبينَ اِلَيْكَ بِاِحْسانِكَ يا غايَةَ الطّالِبينَ۔
ترجمہ : اے معبود! مجھے اس مہینے میں تجھ پر توکل اور بھروسا کرنے والوں کے زمرے میں قرار دے، اور اس میں مجھے اپنے نزدیک کامیابی اور فلاح عطا فرما، اور اپنی بارگاہ کے مقربین میں قرار دے، اپنے احسان کے واسطے، اے تلاش کرنے والوں کی تلاش کے آخری مقصود۔
اہم کلمات (1) توکل (2)سعادت و کامیابی (3)خدا سے قرب اور نزدیکی (4) احسان الٰہی۔ |
۱– أَللّهُمَّ اجْعَلْنى فيهِ مِنَ الْمُتَوَكِّلينَ عَلَيْكَ:
توکل کے لفظی معنی بھروسہ کرنا ہیں۔ بھروسہ کیا ہے؟ اسے یوں سمجھئے کہ ایک شخص صبح سے شام تک ایک ادارے میں کام کرتا ہے کیونکہ اسے اعتمادیا بھروسہ ہے کہ وہ ادارہ مہینے کے آخر میں اسے تنخواہ ادا کردے گا، یا ایک شخص دوا پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے کھاتا ہے تاکہ اس کا سر درد دور ہوجائے وغیرہ،اسلام میں توکل کا مطلب اللہ پر بھروسہ کرنا ، اپنی ہر ضرورت و خواہش کے لئے اس کی جانب دیکھنا اور اپنے کاموں میں اسی سے مددطلب کرنا اور اسی کو اپنا وکیل بنا کر معاملہ اس کے سپرد کردینا ہے، لیکن توکل کے یہ معنی ہرگز یہ نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ ہم کام انجام دیتے رہیں نتیجہ کیا ہوگا اسکی ذمہ داری خدا پر چھوڑ دیں۔۔۔کچھ لوگ توکل کے غلط معنی نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر کام اللہ پر چھوڑ دو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں جبکہ اسے توکل نہیں 'تواکل' اور کام چوری اور سستی کہتے ہیں؛ایک دن رسول خدا 1کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا:کیا میں اپنے اونٹ کوخدا پر توکل کرتے ہوئے یونہی کھلا چھوڑ دوں یا باندھ دوں (تاکہ چوری نہ ہو) اور پھر خدا پر توکل کروں؟رسول خدا 1نے ارشاد فرمایا:پہلے باندھ دو پھر توکل کرو[1]۔ایک دن رسول خدا 1ایک کھیت کی طرف سے گذرے تو دیکھا کہ کسان بیکار بیٹھے ہیں اور کام نہیں کررہے ہیں؛پیغمبر1 نے ان سے پوچھا کیوں کام نہیں کرتے؟انہوں نے کہا:ہم خدا پر توکل کئے ہوئے ہیں(وہ ہمارے بدلے ہماری کھیتی کا کام کردیگا۔۔۔)پیغمبر1 نے جواباً فرمایا:تم ،توکّل کرنے والے لوگ نہیں بلکہ تواکل اور سستی کرنے والے افراد ہو[2]۔اسی طرح امیرالمؤمنین Aنے، ایسی ہی بات کہتے ہوئے مسجد میں بیکار بیٹھے لوگوں کے لئے فرمایاکہ تم لوگ متوکل نہیں کام چوراور سست لوگ ہو[3]۔۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: وَ مَنْ يَتَّقِ اَللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً [4]؛اور جو کوئی خدا کی پرواہ کرتا ہے وہ اس کے لئے (رنج ومحن سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کرے گا ؛ وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاٰ يَحْتَسِبُ [5]؛اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو۔ تو کچھ لوگ مسجد میں آکر بیٹھ گئے اور گھر بار کاروبار تجارت سے بے خبر ہوکر عبادت میں مشغول ہوگئے،جب پیغمبر 1کو یہ خبر لگی تو آئے اور پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو تو وہ کہنے لگے کیوں کہ خود خدا نے ایسا کرنے کو کہا ہے اور روزی کی ضمانت لی ہے ،پیغمبر 1نے ارشاد فرمایا اسکا مطلب وہ نہیں جو تم سمجھے ہو جاؤ اپنے اپنے کاموں پر لگ جاؤاور جو بھی اس طرح بیٹھا رہے گا اسکی دعا قبول نہیں ہوگی[6]۔
توکل کے بہت زیادہ فوائد ہیں نفسیاتی اعتبار سے بھی اور روحی اور اخلاقی نکتۂ نظر سے بھی، خلاصۂ کلام یہ کہ ہم اس دعا میں درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں توکل کرنے والوں میں شمار فرمائےکیونکہ توکل کے معنیٰ بے حرکتی چپ چاپ بیٹھے رہنا نہیں بلکہ تیروں کے سایہ میں بھی اطمینان سے سو کر بازار ملکوت میں ٹہلتے ہوئے مرضئ ذوالجلال کا سودا کرنے کا نام ہے۔۔۔
۲– وَاجْعَلْنى فيهِ مِنَ الْفـآئِزينَ لَدَيْـكَ:
بہت سارے لوگ خوشبختی اور سعادت کے لئے مادیات کو معیار قرار دیتے ہیں؛ لوگوں کی نگاہ میں سعادتمند اور خوشبخت وہ ہے جو وسائل عیش و آرام اور آسایش و رفاہ میں دوسروں پر سبقت لے جائے؛ دین مبین اسلام میں سعادت اور خوشبختی کا معیار ان چیزوں سے بالاتر ہے؛ جس اہم بات کی طرف توجہ کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ مال و دولت خدا تک پہنچنے اور خلقت کے مقصد کو سمجھنے کا وسیلہ ہو، اسی لئے آئمہ معصومین Eجو کہ اللہ کے احکام کے مفسر اور مبلغ ہیں، ہمیشہ اس چیز کی کوشش کرتے رہے کہ سعادت اور خوشبختی کے معنوی پہلوؤں کو اجاگر کر کے دنیا کی خوشبختی کو آخرت کی سعادت اور خوشبختی میں تبدیل کر سکیں اور سعادت و خوشبختی کی ایک ایسی واضح اور روشن تصویر دکھا سکیں جو لوگوں کی حقیقی سعادت اور خوشبختی کی طرف راہنمائی کرے۔۔۔ دعا کے اس فقرے میں درخواست ہے کہ خدا ہمیں فائزین میں قرار دے ۔
یاد آتی ہے انیس ماہِ رمضان کی وہ صبح جب محراب عبادت سے ایک فائز انسان کا جملہ کائنات کے کانوں میں گونجا ''فزت برب الکعبہ؛ فرزند کعبہ !،کعبہ کے رب کی قسم کامیاب و کامران سعید و خوشبخت ہوگیا۔۔۔اگر نصیبا بنانا ہے تو ہمیں بھی یہ دعائیہ جملے اپنی روح کی گیرائیوں اور معرفت کی گہرائیوں کے ساتھ دہرانا اور سمجھنا چاہیئے۔۔۔
۳– وَاجْعَلْنى فيهِ مِنَ الْمُقَرَّبينَ اِلَيْكَ:
اگر ننھا سا قطرہ اپنے محدود اور چھوٹے سے وجود کے ساتھ ٹھاٹھيں مارتے ہوئے وسيع و عريض سمندر ميں غرق ہو جائے تو کوئی طاقت اسے ختم نہيں کر سکتی ؛ انسان جتنا خدا کے نزدیک (فیزیکل یا سینٹی میٹر والی نزدیکی مراد نہیں ہے بلکہ معنوی اور روحی) ہوتا جائے گا اُس کا مرتبہ و مقام بھی بلند ہوتا جائے گا اور جتنا اُس کا مرتبہ بلند ہوگا اسی حساب سے اُس کی روح کو بلندی اور قرب الٰہی نصیب ہوگا، اور پھر وہ مقام آتا ہے کہ انسان اپنے اور خدا کے درمیان کوئی حجاب و پردہ نہیں پاتا اور''ادن منی '' کے کارواں کا ملکوتی مسافر بن جاتا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام کے فرمان کے مطابق:« إِلَهِی هَبْ لِی کَمَالَ الِانْقِطَاعِ إِلَیْکَ وَ أَنِرْ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا بِضِیَاءِ نَظَرِهَا إِلَیْکَ، حَتَّى تَخِرَقَ أَبْصَارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ، فَتَصِلَ إِلَى مَعْدِنِ الْعَظَمَ»”خدایا میری (توجہ) کو غیر سے بالکل منقطع کردے اور ہمارے دلوں کو اپنی نظر کرم کی روشنی سے منوّر کردے۔ حتی کہ بصیرت قلوب سے نور کے حجاب ٹوٹ جائیں اور تیری عظمت کے خزانوں تک پہنچ جائیں‘‘[7]۔ معصومAکے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان خدا سے متصل ہوجاتا ہے تو اس کی توجہ غیر خدا سے منقطع ہوجاتی ہے ،خدا کے علاوہ سب چیزیں اُس کی نظر میں بے وقعت رہ جاتی ہیں ،انسان جب خود کو خدا کا مملوک سمجھتا ہے تب مقام ِقرب کے سلسلے شروع ہوتے ہیں اور ’’ ادن منی‘‘ کے مقام پر معراج پاتا ہے۔۔۔
۴– بِاِحْسانِكَ يا غايَةَ الطّالِبينَ:یہ سارے مراحل بغیر تیرے لطف و احسان کے طئے کرپانا ناممکن اور محال ہے اے جویندگان راہ رضا کے درمقصود!۔۔۔۔
نتائجدعا کا پیغام:1-خدا پر توکل ؛2- نجات یافتہ لوگوں میں قرار پانے کی درخواست؛3-درگاہِ مقربان الٰہی کی صف میں قرار پانے کی درخواست؛4- بندوں پر خدا کے احسانات۔ منتخب پیغام:ایک با ایمان ️انسان مختلف موارد میں خدا پر توکل کرتا ہےاور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خدا اسکی اچھائی اور بھلائی کا ہی خواہاں ہے: «وَ عَلَی اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمؤمِنونَ؛ اور اسی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہئے![8]» خدا پر توکل کا نتیجہ: «وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَی اللهِ فَهُوَ حَسْبَهُ ؛اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے[9]۔» |